اختیارات کا زوال (عالمی مزدور دن کی مخصوص پیش کش)






"ہم سے بڑھ کر انصاف تو کوئی بھی نہیں کرے گا"
کچھ مخصوص قسم کا غرور تھا جمیل صاحب کے لہجے میں۔

"سر آپ سے کچھ  درخواست ہے"
اکرم نے جھجھکتے ہوئے کہا تھا۔
"کہو کیا کہنا ہے"

" سر مجھسے میری بساط کے مطابق کام نہیں لیا جارہا ہے، سر نہ ہی مجھے کام کرنے دیا جارہا ہے میں کوشش کرتا ہوں اچھا کام کرنے کی تو مجھے روک دیا جاتا ہے۔"

"اچھاااا! کون روک رہا ہے تجھے؟"
انداز کافی دوستان تھا۔

"سر وہ اوپر سے لوگ مجھے کچھ نہیں کرنے دے رہے میں کیا کروں، ملازمت ضروری ہے میرے لیے میرے بچے میرا گھر پلتا ہے اسی ملازمت پہ کچھ نہیں کرونگا تو مجھے نکال دیا جائے گا۔ خدارا مجھے اتنا کام تو دیں کہ میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکوں".
اکرم کی درخواست بہت عاجزانہ انداز میں تھی۔

"اچھا چل پھر ارشد آج سے اس کو ہی دیر تک روکنا اور جو بھی کام آئیں
 اس کو دینا۔
ہاں بھئ اب ٹھیک ہے ناں؟ اب کرو کام سہی ہے".
انداز کافی تکبر اور طاقت کا زعم لیے ہوئے تھا۔

"ٹھیک ہے سر"
موقع کو غنیمت جان کر وہ خاموش ہو گیا تھا کہ اس سے زیادہ کیا کہے گا، تو جو مل رہا ہے وہ بھی ہاتھ سے جائے گا۔

"بڑا آیا کام والا کرواتا ہوں اس سے کام میں اب، خود ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگے گا کہ میں تھک گیا سر تب بتاؤں گا سالے کو، ہمیں سکھاتا ہے کہ کام کیسے کرنا ہے اوقات بھول گیا جب یہاں آیا تھا تب بھوکوں مرنے کو تھا۔ اب ہمیں ہمارے کام بتائے گا دو ٹکے کا آدمی"۔
اکرم کے نکلتے ہی مینیجر کے انداز اور الفاظ الگ رنگ میں آگئے تھے۔
کچھ الگ ہی غلاظت بھری فضا ہوگئی تھی، شاید ابنِ آدم نے اپنی ناگوار بو سے ماحول کو غلیظ کردیا تھا۔
کچھ غلاظتیں دکھائی یا محسوس نہیں ہوتی لیکن وہ اپنا ایک تاثر ایک نقش وقت اور ماحول پہ چھوڑ رہی ہوتی ہیں۔
فقط ابنِ آدم یہ بھول جاتا ہے ربانیت کے اختیارات اس کے پاس نہیں وہ صرف ایک بندہ ہے، یہی بھول ساری غلاظتوں کا آغاز کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

-----------------

"میں کیا کروں مجھے بتاؤ اپنے لیے آواز اٹھانے پہ یہاں یہی ہوتا ہے، ہم بس کٹھ پتلی ہیں اور کچھ نہیں، بہرحال اب موقع مل رہا ہے تو میں کام ضرور کروں گا زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا مجھے تھکا دیا جائے گا ناں کوئی مسئلہ نہیں، اللّٰہ بہتر کرنے والا ہے۔"
گھر تاخیر سے آنے کا فون کرتے ہوئے اکرم بہت بےبس محسوس ہورہا تھا لیکن اس بےبسی میں ایک جذبہ اور تھا، اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا۔

قدرت نے ایک ان دیکھا حصار میں لے لیا تھا اسے وہی پرسکون حصار جو اول وقت سے ایمان والوں کو اپنے آپ میں لے لیتا ہے، چاہے پھر وہ جنگ عالم اسلام کے لیے ہو
 یا زندگی اور جدوجھد کی جنگ۔ یہ قدرت اللّٰہ پہ ایمان رکھنے والوں کو تنہا نہیں چھوڑتی۔

-------------

"سر وہ ہر طرح کا کام کر لیتا ہے، آپ کے کہنے کے مطابق میں نے اسے زچ اور پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی باقی ٹیم کے مقابلے میں اسے میں سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال میں انوالو کردیتا ہو۔ باقیوں کو پروموٹ اور ایزی ٹاسک دے کر فارغ کردیتا ہوں، جب کہ اسے صرف کام کا کہہ کر لٹکایا ہوا ہے یا مشکل ٹاسک تھما دیتا ہوں مگر باس وہ ڈھیٹ پھر بھی ثابت قدم چل رہا ہے"

"بات سن میری ارشد آج سے اس کو کام دینا بند کردے، ایک ہی بات بول کام نہیں ہے جب ہوگا تب دے دیں گے، پھر دو تین دن میں ایک ساتھ اتنا پریشر ڈال کہ پھٹ پڑے جب اپنے لیے آواز اٹھانے لگے اسی وقت اس کی زبان میں اپنی لگام ڈال دینا اور نوکری سے فارغ کروادینے کی دھمکی کو اچھے سے استعمال کر۔ اور ہاں وہ بندوں کو اوپر ہی رکھ جنہیں ہم نے پروموشن دلوانے ہیں، کم از کم وہ لوگ ہماری پیروی کرتے ہیں ہمارا خیال اور لحاظ کرتے ہیں، پرسوں ہی میں نے مشتاق سے زنگر منگوایا تھا پیسے تک نہیں لیے مجھ سے یہی بولتا رہا کہ باس آپ سے کیا پیسے لونگا میں، اور وہ شیرازی روز فری کی سگریٹ دیتا ہے مجھے وہ بھی پورا پاکٹ، یہ سالا کنگلا کچھ نہیں کر سکتا بس ہر وقت گھر اور گھر کے مسائل کو روتا رہتا ہے".

جمیل صاحب بول کر اپنے آفس میں چلے گئے تھے۔

لیڈر شپ کا مطلب اختیارات کا صحیح استعمال کرنا ہوتا ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور جو شخص یہ نہ کرے، اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرے وہ لیڈر نہیں صرف اور صرف ابلیس کا کارندہ ہوتا ہے جو انسانیت کا قتل عام بڑے زوق و شوق سے کر رہا ہوتا ہے۔
مگر اکثر طاقت کے نشے میں لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا اوپر سب دیکھ رہا ہے اس سے کچھ مخفی نہیں رہتا وہ قادر مطلق انسان کی شیطانی سازشوں کا پل میں صفایا کر سکتا ہے بس وہ ڈھیل دیتا ہے کی وقت رہتے انسان سدھر جائے۔ لیکن جب رسی کھینچتا ہے تو اچھے اچھے سورماؤں کی چیخیں نکل آتی ہیں۔

----------

اکرم ان تمام لوگوں کو داد وصول کرتے دیکھ رہا تھا جو کہنے میں اس کے ساتھی اس کے ٹیم ورکر تھے۔ جنہیں وہ اپنے کولیگ ہی نہیں اپنا دوست بھی مانتا تھا، مگر ان میں سے کسی نے کبھی اس کا ساتھ نہ دیا ہاں جب جب اس نے اپنے لیے آواز اٹھائی ان میں سے کوئی نہ کوئی اس کی مذاق کی آڑ میں ٹانگ کھینچنے میں پیش پیش رہتے۔

پورا مہینہ اس کے ساتھ تماشے کرنے کے بعد اسے مہینے کے آخر میں دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر سائیڈ لگا دیا گیا۔ مشکل تو یہ تھی کہ اب وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اسے نوکری چھن جانے کی وارننگ مختلف اوقات بار بار باور کرائی گئی تھی۔

وہ خاموشی سے اپنے گھر آگیا۔
لیکن کچھ خاموشیوں کی سنوائی کسی اور عدالت میں بخوبی ہوتی ہے۔

-----------

"بھئی ہم کیا کریں کمپنی کے آرڈرز ہیں کہ جن ملازمین کی ضرورت نہیں انہیں فارغ کیا جائے کمپنی آلریڈی لاس میں ہے وہ ایسے ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے نکالے جو اضافی ہیں اور ان کا کوئی خاص کام یا ضرورت نہیں".

جمیل صاحب نے ایسے کہا تھا جیسے ناک سے مکھی اڑائی ہو۔

"مگر سر میں کیا کروں گا کہاں جاؤں گا۔ ایسے اچانک تو، سر میرے گھر کا کیا ہوگا۔ پلیز مجھے نہ نکالیں سر آپ پلیز اوپر بات کریں میں اپنا بیسٹ دونگا سر پلیز".

بےبسی آخری حدوں کو پہنچ گئ تھی بس پیر پڑھنے رہ گئے تھے۔

"ہم کچھ نہیں کرسکتے ہم خود ملازم ہیں اور بھئی ہمارا کام کام دینا یا بتانا ہے اس کے آگے ہمیں نہیں معلوم".

"سر مجھے بڑے صاحب سے ایک بار بات کرنی ہے".

"بات وات نہیں ہوسکتی مصروف ہیں وہ جو بولنا ہے مجھے بتادو میں ان کو میسج دے دوں گا باقی اب کچھ نہیں ہوسکتا کہیں اور بندبست دیکھ لو اپنا."

اس کو جانے کا اشارہ کردیا گیا تھا۔

"جان چھوٹی منحوس سے ہر وقت کا رونا۔ ارشد یار وہ بندہ جو تم لائے ہو ناں اس کو اس کی جگہ لگاؤ اور ہاں اس کے لیے کسی دوسرے کو کہو کہ اس کو کام اچھے سے سکھائے صرف تھوڑے بہت کام آنے سے کام نہیں چلتا یار".

اکرم کے جاتے ہی باس کی ٹون بدل گئی تھی۔ خود کو لاچار اور مجبور ظاہر کرنے والا اچانک اختیارات سے لیس ہوگئےتھے۔

--------

مرے قدموں اور ٹوٹے ذہن کے ساتھ وہ اپنا سامان سمیٹ کر گھر آگیا تھا۔
دو دن بعد اس کی پے سے ناجانے کون کون سے چارجز کے نام پہ پیسے کاٹ کر بمشکل آدھی تنخواہ احسان کے طور پہ اس کے منہ پہ مار دی گئی تھی۔
جسے ہاتھ میں لیے وہ سوچ رہا تھا کہ کیا فائدہ ہوا اس خوف کا کہ نوکری چلی جائے گی۔ اتنی محنت، کوشش اور برداشت کے باوجود بھی اسے ملازمت سے سبکدوش ہی ہونا پڑا۔

وقت اور حالات کسی کے روکنے سے رکتے نہیں ہیں۔

----------

"کم تنخواہ ہے پر شکر ہے یہاں طعنے نہیں دیئے جاتے".

وہ پرسکون لہجے میں گویا تھا۔

"آپ تو سکون میں ہیں ناں بس یہی بہت ہے"

اس کی بیوی نے اس کی راحت پہ شکر ادا کیا تھا۔

"ہاں یار یہاں پہ مجھے اہمیت بھی دی جاتی صلح مشورہ ہو تو مجھے انوالو بھی کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بہت ہی دوستانہ اور برابری سے کام ہوتا ہے۔ اللّٰہ کا کرم ہے پیسے تو کم ہے پر سکون سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں."

بےشک قدرت کے فیصلے بہترین ہوتے ہیں۔

----------

"یار گھر میں ڈکیتی ہوگئی ہے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں کل ہی تنخواہ کے ساتھ کمپنی سے لون بھی لیا تھا وہ بھی لے گئے، سارا سامان اور قیمتی اشیاء سب چلی گئی سمجھ نہیں آرہا کیا کروں"۔

اپنے سے اوپر سیٹ پر کام کرنے والے جنید کو وہ بتاتے ہوئے تقریباً رونے کو تھے۔

"تو مطلب جو لون تم نے لیا وہ کسی کام نہیں آیا بلکہ ڈکیت لے گئے اور چکانا بھی اپنی جیب سے پڑے گا تمہیں؟"

"ہاں یار وہی تو سب سے بڑی پریشانی ہے۔
کیا ہوگا سمجھ نہیں آرہا۔ یار پلیز تم اوپر بات کرو ناں لون معاف نہیں کرتے تو کم از کم اگلی سیلری سے ایڈوانس ہی دلوادو میں بیت پریشان ہوں پورا مہینہ کیسے گُزرے گا۔"

"بھئی ہم کیا کرسکتے ہیں ہم تو صرف کمانڈز فالو کرتے ہیں۔ اوپر والے نا بول رہے ہیں تو ناں ہی سمجو۔ تم کسی جاننے والے سے قرض لے کے مہینہ گزار لو".

جنید نے صاف ہاتھ جھاڑنے والے انداز میں کہا کر کمپیوٹر اسکرین پہ متوجہ ہوگیا تھا۔
یہ انداز جمیل صاحب کے لیے جانے کا واضح اشارہ تھا۔
وہ خاموشی سے باہر آگئے تھے۔

سامنے مشتاق کو جاتا دیکھ انہوں نے اسے آواز دے کر بلایا

"یار مشتاق تجھے تو معلوم ہے کہ میرے گھر ڈکیتی ہوگئی ہے یار کیا تم ۵ہزار ادھار دے سکتے ہو مجھے؟"

"باس آپ کو تو معلوم ہے ہم غریب لوگ ہیں ہم کہاں اتنے پیسے لے کے گھومتے ہیں"۔

بول کے وہ چلتا بنا تھا اور جمیل صاحب اس غریب کو دیکھتے رہ گئے تھے جو ابھی ہزار روپے سے اوپر کا لنچ کر کے واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگا کر آرہا تھا۔

انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں ارشد نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی تھی کہ وہ خود اس مہینے تنگ ہے اس کے پاس ادھار دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

بس جمیل صاحب کو یہ نہیں یاد تھا کہ انہوں نے اکرم کے ساتھ کیا کیا تھا۔

انسان اپنا کیا ہمیشہ بھول جاتا ہے لیکن قدرت نہیں بھولتی۔ وقت اور حالات کے ذریعے مکافات عمل کی مار وہاں لا کے مارتی ہے جہاں انسان پانی تک نہیں مانگ سکتا۔

اختیارات کے زعم اور نشے میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ اختیارات ایک زمے داری اور امانت ہے جس میں خیانت کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔

                  ✍️ عریشہ عابد

Comments

Popular posts from this blog

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan

Book review of "AMAL" by Muniza Ahmed