الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 13



تیرہویں قسط۔

"امی ایک بات کرنی ہے آپ سے".

"بولو بیٹا"

"امی آپ وعدہ کریں کہ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہوں گی اور میرا ساتھ دیں گی کیونکہ آپ کے علاؤہ میرا کوئی نہیں، اگر آپ ناراض ہو سکتیں ہیں تو رہنے دیں مجھے نہیں کرنی کوئی بات۔"
عایشہ نے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ضروری سمجھا۔

"نہیں ہوں گی ناراض بولو"

"اچھا میری پوری بات پہلے ختم ہو جائے پھر آپ بولنا اس سے پہلے نہیں"

امی نے اثبات میں سر ہلایا۔
اس نے گہری سانس لی اور بولنا شروع کر دیا۔

"امی مجھے معلوم ہے آپ بلال بھائی سے بہت اٹیج ہیں اور ان سے پیار بھی بہت کرتی ہیں۔
مجھے خزینہ نے کہا تھا خالہ جانی کبھی بھی نہیں سنیں گی کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلال بھائی سے پیار کرتی  ہیں۔
لیکن امی میرے پاس اب کو چارہ نہیں ہے میں نے خزینہ سندس سے بھی شئیر کر کے دیکھ لیا انہوں نے تو اللّٰہ جانے کیا کیا فضول باتیں شروع کر دی تھیں۔
امی بلال بھائی مجھے بہت تنگ کرنے لگے ہیں۔
وہ اس دن آپ گھر میں نہیں تھیں تب گھر آگئے تھے اور مجھے بری طرح نوچنے پکڑنے لگے وہ تو میں خود کو چھڑا کر ماموں کے گھر بھاگ گئی تھی۔
بعد میں بھی وہ بہت بار آئے لیکن میں دروازے کھڑکیاں بند کر کے بیٹھتی تھی تاکہ وہ اندر نہ گھس سکیں۔"

وہ لمبی تمہید باندھنے کے بعد آدھی بات بتا کر سانس لینے رکی کہ امی کے چہرے سے اندازہ کرسکے کہ وہ کیا سوچ رہیں ہیں لیکن ان کا چہرہ ایک دم سپاٹ تھا۔
اس نے ہمت کر کے مزید آگے جاری رکھا۔

"امی اس دن جب لائٹ نہیں تھی ہم ماموں کے گھر تھے اور فیصل مجھے گدگدی کر رہا تھا یاد ہے آپ کو؟"
امی نے اثبات میں سر ہلایا۔

"امی وہ فیصل نہیں تھا وہ بلال بھائی اپنے پاؤں سے مجھے الٹا سیدھا ٹچ کر رہے تھے۔ کیونکہ فیصل کے جانے کے بعد مجھے پھر گدگدی ہوئی تب میں نے سوچا کہ فیصل تو جاچکا ہے پھر کون ہو سکتا ہے تب میں سائیڈ میں جاکر کھڑی ہوگئی۔
لائٹ آنے کے بعد دیکھا تو بلال بھائی تھے اور آپ لوگوں کے کمرے سے نکلتے ہی مجھے پوچھنےگے کہ............... مزا آیا۔
امی میں بہت پریشان ہوں بلال بھائی کی وجہ سے۔ دن میں سونا جاگنا، اٹھنا، بیٹنا عذاب ہوگیا ہے گھر بند کرکے بیٹھی رہتی ہوں۔
امی مجھ سے ناراض نہیں ہونا بس مجھے آپ کا ساتھ چاہیے پلیز مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے اب ".

عایشہ نے ہمت کر کے سب کہہ ڈالا۔

"بلال کی یہ ہمت اتنا گھٹیاپن کرسکتا ہے وہ"
امی کی بات سن کر پہلے تو عایشہ کو یقین نہیں آیا کہ واقع امی نے اس کا یقین کرلیا۔

"تم پریشان مت ہو میں آج ہی اس سے بات کرتی ہوں۔
اور یہ آپی کی بیٹیوں کی بھی عجیب باتیں ہیں پہلے مجھے کہتیں کہ خالہ جانی عایشہ کا رشتہ آپ بلال بھائی سے مانگ لیں ماموں سے تاکہ ان کی جان چھوٹے اس آوارہ سے کوئی ان کا رشتہ لگانے کی بات نہ چھیڑے ، میں اپنی بیٹی کو ان کے لیے قربان کردوں اور میری بیٹی جیسے گری پڑی ہے جو میں بھائی جان سے بھیک مانگوں حد ہے مطلب پرستی کی"

امی غصے میں ان لوگوں کی باتیں دھرانے لگیں اور عایشہ کو زہنی سکون ملنے لگا کیونکہ امی سے کہہ کر اس کی آدھی نہیں پوری مشکل حل ہو گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر واپس آتے ہی وہ جائے نماز بچھا کر اللّٰہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ اس کی پریشانیوں کا حل نکل آیا۔

وہ اپنے رب کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔
بےشک وہی تو ہے جو لوگوں کی مشکلیں آسان کرتا ہے آزمائش سے نکالنا صرف اسی کی صفت ہے۔ صرف وہی ہے جو انسان کو اس کی برداشت سے زیادہ کبھی نہیں آزماتا۔ صرف وہی وحدہُ لاشریک ہے جو تنہائی میں بھی انسان کو تنہا نہیں ہونے دیتا، جب پوری دنیا بھی انسان کے خلاف ہو تب بھی رب العزت انسان کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔
یہ صرف انسانی سوچ ہے جو اسے تنہا کرتی ورنہ انسان کبھی تنہا نہیں ہوسکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی نے بلال کو میسج کرکے رات میں آنے کے لئے کہا تھا۔

وہ بہت غصے میں تھیں لیکن عایشہ سخت ڈری ہوئی اسے رہ رہ کر رونا آرہا تھا کہ یہ مقام بھی زندگی میں آنا تھا۔
بلال کا کوئی بھروسہ نہیں تھا آگر وہ امی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں گھیر کر اپنے حق میں کھڑا کر لیتا تو اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہنا تھا کیونکہ اس کی ماں ہی اس کا واحد سہارا تھیں۔

وہ جائے نماز بچھا کر عشاء ادا کر کے نفلیں پڑھنے لگی کہ اللّٰہ اس کی راہیں آسان کردے۔

نفلیں پڑھتے ہوئے کب آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے اسے پتہ ہی نہیں لگا۔

زردرنگ کے جوڑے میں خوف کی شدت سے وہ اسی زرد رنگ کا حصہ لگ رہی تھی۔ آنسوؤں سے آنکھوں کا کاجل بھیگا بھیگا لگنے لگا تھا۔

خوف کی شدت ہی تو تھی۔
رشتوں کے کھو جانے کا خوف، اپنے وجود کے وقار کی بحالی نہ ہونے کا خوف، رشتوں سے لڑنے کا خوف۔

اور جب وہ زرد رنگ میں ڈوبی کاجل بھری بھیگی آنکھوں کے ساتھ آخری رکعت ادا کر رہی تھی تب ہی وہ درندہ صفت انسان کمرے میں داخل ہوا۔
دعائیں مانگنے میں عایشہ کی اتنی شدت آگئی کہ اب باقاعدہ اس کی ہچکیاں بندھ گئی۔
امی نے بلال کو بیٹھنے کے لیے کہا۔
بلال امی سے ہمیشہ کی طرح ہنسی مذاق اور بےتکلفانہ انداز اپناتے ہوئے بات کرنے لگا۔
لیکن امی کے مزاج میں آج کچھ ایسا تھا کہ بلال کی بےتکلفی ہوا ہونے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

ازقلم
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Happy women's day 2024 ♀️

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan