الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 17


سترہویں قسط۔

اس گھر میں شفٹ ہوئے انہیں صرف آدھا مہینہ ہوا تھا۔
پرانے مالک مکان سے پانی تھیک سے نہ دینے کی وجہ سے ان لوگوں نے گھر بدل لیا تھا۔
یہاں ان کی دوستی ہوگئی تھی مالک مکان کی امی سے اور ان بہن بھائی کی ان کے بچوں سے۔

یہاں ایک سہولت یہ تھی انہیں کہ مالک مکان نے گیٹ کے لاک میں باریک ڈور باندھ کر اوپر پورشن کی کھڑکی میں جوڑ دی تھی۔
جس سے کوئی بھی اوپر آنے والا شخص بیل بجاتا تو یہ لوگ ڈور کھینچ کر دروازہ کھول دیتے اور اگر کوئی اوپر آنے والا گیٹ ناک کرتا تو مالک مکان اندر بلانے کے بجائے بیل بجانے کا کہہ دیتیں۔
اس سے بلال بھائی کی اچانک آمد سے تو جان چھوٹ گئی تھی عایشہ کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ارے یہ جن لوگوں کا خون ہے ان کی فطرت میں ہی کھوٹ ہے"
ماموں مزے سے کہہ رہے تھے اور وہ ان کی شکل دیکھ رہی تھی۔

"ہاں اور نہیں تو کیا اپنی دادی پھوپھی جیسے ڈرامے کرتی بس"
خالہ نے ٹکڑا لگایا۔

وہ خاموشی سے سب کی شکل دیکھ رہی تھی۔

باپ نہ ہونا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کالج سے گھر پہنچی تو مدیحہ کی امی نے بتایا کہ اس کی ممانی آئی تھیں کہا ہے کہ وہ انکے گھر آئے اس کی امی آفس سے کال، کررہی ہیں۔

وہ اسی حالت میں ماموں کے گھر پہنچی وہاں آکر معلوم ہوا کہ چھوٹے ماموں اسے لینے کالج گئے تھے اور وہ پہلے نکل چکی تھی جس کا انہیں معلوم نہیں تھا۔

وہ بےچارے دو گھنٹے خوار ہو کر واپس گھر آگئے۔

رات میں جب امی گھر آئیں تو ماموں نے امی سے بات کی کہ عایشہ کو ایک موبائل دلا دیا جائے اس سے وہ لوگ کم ازکم اس سے کانٹیکٹ تو کرسکیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امی نے اسے سادہ سا ایل جی کا فون لے دیا اور سب کو اس کا نمبر بھی دے دیا۔
کچھ عرصہ تو سکون رہا لیکن بلال کی غلاظت کی حس پھر پھڑکنے لگی۔

اب اسے عایشہ سے بات کرنے کے لیے موقع کی ضرورت نہیں بلکہ موبائل اس کام کو انجام بخوبی دینے لگا۔

وہ روز عایشہ کو میسج اور کال کرنے لگا جس کا کبھی عایشہ جواب دے دیتی کبھی اگنور کردیتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے پیپرز ہورہے تھے منجھلے ماموں اسے روز صبح ساتھ لے جاتے کیونکہ ان کی آفس کے پاس ہی اس کا ایگزیمنیشن سینٹر تھا اور واپسی میں اسے بس میں بٹھا دیتے۔

وہ روز گھر پیپر اور پڑھائی کی مشقت سے اتنی تھکنے لگی تھی کہ ایک مرتبہ وہ بس میں سو گئی وہ تو شکر تھا اس کی آنکھ دو اسٹاپ پر آگے جاکر کھل گئی تھی ورنہ اس سے آگے کا راستہ اسے معلوم نہ تھا۔

اب اس نے پاکٹ سائز قرآن مجید ساتھ رکھنا شروع کردیا تاکہ وہ دل ہی دل میں تلاوت بھی کرتی رہے اور اسے نیند بھی نہ آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عایشہ کی امی کی پروموشن ہوگئی وہ اس کے پپا کی کمپنی کے ہاسپٹل میں جاب کررہی تھیں۔
ان کی محنت اور قابلیت دیکھ کر کمپنی والوں نے انہیں اپنے نامی گرامی اسکول میں بک شاپ انچارج اور کورس وغیرہ کی سیل پرچیزنگ انچارج کی جاب آفر کردی۔
جسے امی نے خوشی خوشی قبول کیا اور ساتھ ہی فیصل کا ایڈمیشن بھی کروادیا اسی اسکول میں پپا کے بی ہاف پر۔

یہاں ایک سہولت تھی کہ شہر سے دور ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو پک اینڈ ڈراپ ملتی تھی۔ امی کی کنوینس آفس کی طرف سے فری تھی۔

دونوں ماں بیٹا ساتھ جاتے اور ساتھ واپس آتے تھے۔
عایشہ ان سے پہلے گھر پہنچ جاتی تھی۔

فیصل کے اس اسکول میں ایڈمیشن ہونے پر سب ہی خوش تھے ماموں دادو سب۔ ان کی دادو کے گھر امی نے میٹھائی بھیجی تھی ان دونوں بہن بھائی کے ہاتھ۔

فیصل اور عایشہ اکثر وہاں جاتے تھے ملنے۔

عایشہ دو تین بار اپنے کالج سے ڈائریکٹ بھی گئی تھی دادو کے گھر۔
وہ اکثر اپنی اسکول کی پرانی دوست کے گھر رک بھی جایا کرتی تھی رات کو۔
وہی دوست جس کی امی نے ان لوگوں کو ان کے پپا کے انتقال پر سہارا دیا تھا۔
ردا اس کی دوست جس سے اس نے رابطہ ختم نہیں کیا تھا۔
وہ اس کے گھر جاتی تھی اس سے ملتی تھی اکثر رک بھی جاتی تھی۔
ردا کی امی اس سے بہت ہی محبت سے ملتیں تھیں۔
اپنی کزنز اور ان کی ساری ناانصافیوں کی داستان وہ ردا سے ہی شئیر کرتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلال پچھلے دو گھنٹے سے اسے زچ کیے ہوئے تھا۔

"یار پلیز ایک بار مل لو ناں".

"ٹھیک ہے آپ رات میں آجائیں ملنا ہے تو امی بھی گھر پہ ہی ہونگی"
اس نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔

"یار پھوپھو جب نہیں ہوں تب کی بات کررہا ہوں میں۔ اب تو فیصل بھی نہیں ہوتا ابھی کیا مسئلہ ہے میں ابھی آجاتا ہوں تم گھر ہی ہو ناں".

"نہیں کل میرا آخری پیپر ہے میں تیاری کررہی ہوں اس کی"
اس نے بہانہ بنایا، آخری پیپر دو دن بعد ہونا ہے لیکن بلال کو روکنے کے لیے وہ مسلسل بہانے بنائے جارہی تھی کیونکہ اب کسی کو نہیں یقین آنا تھا نہ امی کو نہ کسی اور کو کیونکہ بلال سب کے آگے معصوم بن جاتا تھا۔

"اچھا دو منٹ گیٹ کھولو میں نیچے ہوں".
اس بار اس کے صحیح معنوں میں رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

وہ تو شکر تھا مالک مکان ان کے آنے والوں کے لیے گیٹ نہیں کھولتی تھیں ورنہ وہ کب کا اوپر آچکا ہوتا۔

اس نے کھڑکی میں دیکھا وہ نیچے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔

"اب تو گیٹ کھول دو".

"نہیں بلال بھائی امی نہیں ہیں میں گیٹ نہیں کھولوں گی ابھی"

اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فون پر قطعیت سے منع کردیا۔

"یار حد ہے مطلب تمھیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے ناں"

"اعتبار کی بات نہیں ہے بلال بھائی۔ یہاں آنٹی اور ان کی بیٹیوں سے ہماری دوستی ہوگئی ہے اور آپ کے اس طرح امی کی غیر موجودگی میں آنے پر وہ کیا سوچیں گی۔"

"کوئی کچھ نہیں سوچتا، تم گیٹ کھولو ناں یار".

"بلال بھائی ابھی میں پڑھ رہی ہوں پلیز مجھے تیاری کرنی ہے پیپر کی اور مجھے کچھ یاد نہیں ہورہا".

"اچھا ٹھیک ہے پھر میں بعد میں آجاؤں گا".

"اوکے"
اس نے اسے ٹالا۔
لیکن وہ بہت پریشان ہوگئی کیونکہ یہاں ماموں کا گھر بلکل سامنے نہیں تھا جس کی وجہ سے بلال کافی ڈھیٹ بن رہا تھا۔
اسے اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

ازقلم،
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan

Book review of "AMAL" by Muniza Ahmed