الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 16



سولہویں قسط۔

زندگی اور وقت کبھی ایک سے نہیں رہتے اور نہ ہی ان دونوں کا کبھی بھروسا کیا جاسکتا ہے۔

انسان منصوبے بہت بناتا ہے ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے مشقت بھی کرتا ہے۔
لیکن انسان کو یہ تک معلوم ہوتا کہ اس کے منصوبے جن کے لیے وہ محنت کررہا ہے پورے ہونگے بھی کہ نہیں۔

انسان صرف اور صرف اندازے کی بنیاد پر زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

کبھی اندازہ صحیح کام کرتا ہے کبھی ناکام ہوجاتا ہے۔

عایشہ کو بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے سیدھی سپاٹ زندگی کے اندازے اس کو کتنا خوار کروانے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ غائب دماغی سے صرف سب کو دیکھے جارہی تھی
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس پر کیچر اچھالا جارہا ہے۔
سمجھ آتا بھی کیسے یہ سب سمجھنے کی ایک عمر ہوتی ہے اور وہ ابھی اس عمر کو پہنچی نہیں تھی۔

اس وقت کے لگائے کچوکے اس کی روح کو آنے والے وقت میں سمجھ آجانے کے بعد کیسے چھلنی کرنے والے اس کا اندازہ عایشہ کر بھی نہیں سکتی تھی۔

وہ تو صرف بت بنی سب کی گالیاں سن اور برداشت کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر چینج کر کے ماموں کے گھر کے پیچھے والی گلی میں شفٹ ہوگئے تھے وہ لوگ۔

گھر اتنا ہی بڑا تھا جتنا پہلے والا۔

سیڑھی چڑھتے ہی اوپر صحن اور صحن میں موجود ایک کونے میں دو کمروں کا یہ پورشن جس کا کچن اور واش روم کمروں کے اندر موجود چھوٹے صحن میں واقع تھے۔

یہاں ان کے لیے ایک آسانی یہ تھی کہ مالک مکان بھی بیوہ خاتون اور چار بچوں کی ماں تھیں۔

جلد ہی ان کے بچوں سے ان دونوں بہن بھائی کی دوستی ہوگئی تھی۔

سب سے بڑی مدیحہ عایشہ کی ہم عمر تھی اس کے بعد سعد پھر رافعہ اور سب سے چھوٹا احسن فیصل کے برابر تھا۔

مدیحہ اور عایشہ دونوں فرسٹ ائیر میں تھیں لیکن مدیحہ پری انجینئرنگ اور عایشہ پری میڈیکل کی اسٹوڈنٹس تھیں۔

سارا سال خاندانی اور معاشی پریشانیوں کے باعث عایشہ کی پڑھائی کا کافی ہرج ہوا تھا۔

نہ وہ ڈھنگ سے کوچنگ لے پائی تھی نہ ہی کالج میں ٹائم دے پائی تھی۔

اس وقت پیپر نزدیک تھے اور عایشہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"امی میری تیاری بلکل نہیں ہے کیا کروں سمجھ نہیں آرہا".

اس نے اپنی پریشانی امی سے ظاہر کی۔

"میں کیا کرسکتی ہوں لے لیتی کوچنگ میں ایڈمیشن."

وہ منہ کھولے امی کو دیکھ ہی سکتی تھی بولتی بھی کیا پیسے اور اختیار اس کے پاس تو نہیں تھا کہ وہ خود سے سب کرلیتی۔

"امی آپ نے خود تو نہیں کروایا ایڈمیشن اور نہ ہی آپ کے کے گئی میں نے بولا بھی تھا آپ کو".

اس نے کمزور سا احتجاج کرنا چاہا۔

"ہاں تو ساری زمہ داری میری ہے ناں تمھارا باپ میری جان پہ عذاب چھوڑ گیا اب بھگتوں بھی میں ساری میری غلطی ہے میں ہی کیوں نہیں مرگئی جان چھوٹ جاتی میری جیسے تمھارا باپ سب چیزوں سے جان چھڑا کر چلتا بنا۔"

مزید عایشہ کے سننے کی سکت نہیں تھی وہ نیچے مدہت کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
اسے بےتحاشا رونا آرہا تھا۔
سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے امی کا برتاؤ سمجھاے باہر ہوگیا تھا۔

اسے سمجھنے والا اب کوئی موجود نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

ازقلم،
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan

Book review of "AMAL" by Muniza Ahmed