الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 14
چودھویں قسط۔
بلال امی سے فری ہونے کی اپنی سی کوشش کرنے میں ناکام رہا۔
"بلال مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے".
"جی پھوپھو بولیں".
"پہلے تو مجھے تم یہ بتاؤ کہ عایشہ کو تم سمجھتے کیا ہو؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب کیا سمجھتے ہو اسے؟"
"سمجھنا کیا ہی پھوپھو میرے لیے ماہا جیسی ہی ہے".
"ماہا کے ساتھ بھی تم یہ سب کرتے ہو جو تم نے عایشہ کے ساتھ کیا؟
اسی طرح رہا تو میں بھائی جان سے بات کرونگی بلکہ اب میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں کہ عایشہ کو آپی کے گھر چھوڑ دوں وہیں سے یہ کالج چلی جایا کرے گی وہیں پر رہے گی۔"
"مطلب میں نے کیا کیا ہے؟ اور آپ بےشک کریں ابو سے جو بات کرنی ہے کیونکہ مجھے جب پتہ ہی نہیں کہ ایسا کیا ہوا ہے جو آپ ناراض ہیں اور یہ پاگلوں کی طرح رو رہی ہے۔ اچھا ہے چھوڑ دیں اسے نازی آپی کے گھر آپ کو بھی آسانی رہے گی سکون سے آفس میں ٹائم دیں لیں گی فیصل تو سارا دن ویسے بھی اویس(ماموں کا چھوٹا بیٹا جو عایشہ سے دو سال بڑا تھا) کے ساتھ گزارتا ہے یہی اکیلی رہتی ہے۔ اکیلے میں الٹی سیدھی سوچیں آجاتیں ہیں دماغ میں"
"بلال تم انجان مت بنو اب کیونکہ تم جانتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔"
"مجھے نہیں سمجھ آرہا آپ کہنا کیا چاہتی ہیں میرے لیے جیسی ماہا ہے ویسی عایشہ اور جیسا میرا بیہیویر اور ہنسی مذاق ماہا کے ساتھ ہے ویسا ہی عایشہ کے ساتھ ہے."
اس کی اس بات پر عایشہ نے نم آنکھوں سے پہلے اس کو اور پھر امی کو دیکھا۔
وہ دونوں ہی کنفیوژ ہوگئی کہ معاملہ کہیں غلط فہمی کا تو نہیں کیونکہ پچھلے دنوں خالہ کی بیٹیاں بلال کی کافی برائیاں کر رہیں تھیں کہ بلال گندی ذہنیت کا ہے وغیرہ وغیرہ۔
شاید وہی ذہن میں ہو اور عایشہ کو سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہو۔
کیونکہ بلال کے چہرے پر شرمندگی یا ڈر نام کو نہیں تھا، بلکہ حیرت اور تعجب کے تاثرات اس کے چہرے پر واضح ہورہے تھے۔
اسی خدشے کے پیش نظر امی نے بات سمیٹنے کی کوشش کی کہ کہیں ان کی بیٹی پر بدنامی نہ آئے۔
"یہ رو رہی تھی کہ بلال بھائی نے مجھے تنگ کیا تھا ڈانٹا بھی تھا تو میں نے کہا لیتی ہوں آج بلال کی کلاس آنے دو اس کو".
امی نے ہلکے پھلکے انداز میں بات ختم کرکے اسے محسوس کروادیا کے وہ غصہ نہیں جس پر بلال واپس اپنی جون میں آنے لگا۔
"حد ہے اتنی سی بات پر انڈین ڈرامے والا سسپینس میں تو پریشان ہی ہوگیا تھا۔"
"ہاں تو تم بھائی ہو کر اس کا خیال نہیں رکھتے اسے تنگ کرتے ہو تو اور کیا ہونا سب سے زیادہ اٹیج تم سے ہے کیونکہ اس کا کوئی بڑا بھائی تو ہے نہیں تمہیں ہی بڑا بھائی مانتی ہے".
"چلیں کوئی بات نہیں اب سے نہیں ڈانٹوں گا بلکہ خیال رکھوں گا اپنی بہن کا۔"
اسی طرح کی نارمل باتیں کر کے گپ لگا کر جب وہ چلا گیا تو خاموش تماشائی بنی عایشہ نے امی سے شکوہ کر ڈالا۔
"امی آپ نے انہیں کچھ بھی نہیں کہا".
"عایشہ غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے زیادہ اس لیے نہیں بولا کہ بات بڑھتی تو اس کا کچھ نہیں جاتا مسئلہ تمھارے ساتھ بنتا،ویسے اس کو سمجھا تو دیا ہے میں نے اب احتیاط کرے گا".
عایشہ خاموش ہی رہی۔
بول بھی کیا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن سکون کی نظر ہوگئے وہ بھی اپنے کام اور پڑھائی میں مصروف رہی اب اکثر نانا ابو اس کے پاس آجاتے دن میں۔
شاید امی کہہ آئیں تھیں کہ عایشہ اکیلے ڈرتی ہے۔
فیصل سے تو وہ بہت چڑتے تھے۔ لیکن عایشہ کو بہت پیار دیتے تھے۔
وہ بھی ان کی ہزار بار کی سنائی ہوئی کہانیاں ہر بار شوق سے سنتی تھی۔
جبکہ ان کی لاڈلی ماہا اکثر بدتمیزی سے ٹوک دیتی تھی۔
کیونکہ نانا ابو کا بڑھاپے کی وجہ سے حافظہ جواب دیا گیا تھا وہ ایک ہی بات ایک ہی وقت میں چار بار کہہ جاتے اکثر ماہا جب وہ اپنے قصے سناتے تو کمرے سے ہی چلی جاتی تھی۔
لیکن عایشہ کو بہت اچھا لگتا تھا۔
اسے ان سے دادو، پھوپھو، پپا اور اپنے دادا جیسی خوشبو اور لگاؤ محسوس ہوتا تھا۔
اپنے دادا کی زندگی میں عایشہ ان سے بہت اٹیچ تھی۔
ابھی بھی وہ اپنا پریکٹیکل جرنل بنانے لگی اور ساتھ ساتھ نانا ابو کے دور کے قصے مزے لے کے سننے لگی۔
یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور ان سے جڑی خوشی عایشہ کو سکون دینے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال کا رویہ اس کے ساتھ نارمل تھا وہ اسے تنگ کرنے کے بجائے اب اس کا خیال رکھنے لگا تھا۔
عایشہ کو کبھی کبھی واقعی اپنی عقل پہ شبہ ہوتا کہ کہیں وہ غلط تو نہیں تھی۔
ابھی بلال ان کے گھر آکر باتیں کرنے لگا ادھر ادھر کی اور سامنے ٹیبل پر پڑی اس کی ڈائری اٹھا کر پڑھنے لگا۔
اس ڈائری میں اپنا تمام اکیلاپن اور تشنگی عایشہ لکھتی تھی۔
اکثر جگہ وہ خود کو خود ہی دعائیہ انداز میں لکھتی۔
"May you will have a best friend for you, who understands you and listen all your pains"
"تمہیں ایک اچھی دوست مل جائے تمھارے لیے، جو تمہیں سمجھے اور تمھارے درد کو سن لیا کرے"
کچھ جگہوں پر لکھا ہوا تھا۔
"Please Allah Mian grant me a best friend who listen to me and loyal to me none of my friend listen to me with patience. They always make me feel like I am no one."
"پلیز اللّٰہ میاں مجھے ایک اچھی سی دوست مل جائے جو میری باتیں سنے جو مجھ سے بےایمانی نہ کرے، میری کوئی بھی دوست مجھے صبر سے نہیں سنتی ہیں۔ ہمیشہ مجھے محسوس کراتی ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں۔"
عایشہ کی تمام اسکول فرنڈز جن سے وہ کلوز تھی سب الگ ہوچکی تھی اس کا رابطہ سب سے نا ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔
اکثر وہ خود کو اکیلا سمجھنے لگتی جب باتیں شیئر کرنے کیلیے کوئی نہ ہوتا۔
امی کو اس کی ہر بات فضول لگنے لگی تھی، فیصل اس سے چھوٹا تھا اور زیادہ تر لڑتا رہتا تھا۔
کالج فرینڈز سے اس طرح کلوز نہیں ہو پاتی تھی وہ کیونکہ اکثر لڑکیاں مذاق بھی بناتی تھیں۔
اس لیے کالج میں ہر وقت چہکنے والی اور فرینک عایشہ اصل میں کتنی اکیلی تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
اکثر امی کی غیر موجودگی میں وہ امی کی شادی کی تصویریں اور ان لوگوں کی سالگرہ کی تصاویر نکال کر وہ گھنٹوں دادو پھوپھو پپا دادا کی امیج سے باتیں کرتی رہتی۔
اسے محسوس ہوتا تھا وہ روتی تو تصویر میں پپا کی ہنستی جھلک بھی اداس نظر آتی تھی اسے۔
اب یہ اس کے دماغ کا فتور تھا یا حقیقت واللہ اعلم لیکن وہ ان سب کی عادی ہوتی جارہی تھی۔
دن میں کم از کم ایک بار وہ ضرور ان تصاویر سے باتیں کرتی ڈھیروں شکوہ کرتی۔
یہ سب اس کے ذہن پر الگ ہی اثر کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عایشہ نے جس سینس میں بیسٹ فرینڈ کی دعا مانگی تھی بلال نے اس سینس کو اپنی سوچ کے مطابق لیا۔
کیونکہ انگلش میں بیسٹ فرینڈ سے مراد مذکر تھا یا مونث بلال نے جاننے کی کوشش نہیں کی نہ اس بارے میں سوچا۔
وہ تو ان تحریروں اور اشعار کو اپنا ہی رنگ دینے میں مصروف ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
ازقلم
عریشہ عابد۔
Comments
Post a Comment