الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 12



بارہویں قسط۔

عایشہ کی ڈر سے حالت خراب ہوگئی تھی امی کو واپس شکایت کرنا مطلب ڈانٹ کے ساتھ ساتھ مار کھانے کے مترادف تھا کیونکہ پہلے ہی امی فیصل کو قصوروار سمجھ کر غصے میں تھیں۔

اس نے ملگجے اندھیرے میں ڈرتے ڈرتے وہ چیز پکڑ کر اپنے کہنی کے نیچے دبوچنے کی کوشش کی تو محسوس ہوا کہ وہ ایک بڑا پیر تھا مردانہ پاؤں۔
عایشہ وہاں سے فوراً ہٹ کر کمرے کے گیٹ پر جاکر کھڑی ہوگئی اسے ابھی بھی نہیں سمجھ آرہا تھا کہ کون ہوسکتا ہے۔

اتنے میں لائٹ آنے پر ہر طرف بلب اور ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی پھیل گئی اس نے فوراً بیڈ کی طرف دیکھا وہاں اور کوئی نہیں بلال پیچھے ہو کر ایسے لیٹا تھا کہ صحن سے آتی چاند کی روشنی اور کمرے میں جلتی چارجنگ لائٹ کی مدھم روشنی اس تک رسائی نہیں کرسکتے تھے۔

یعنی بلال نے ابھی بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ تو سمجھ رہی تھی گیٹ بند کر کے خود کو کمرے میں قید کر کے اسنے اپنا آپ محفوظ کر لیا تھا۔
لیکن نہیں آج سب کے سامنے اس کے ساتھ نازیبا حرکات کر کے اس ہوس پرست نے واضح کردیا کے وہ اپنوں کی موجودگی میں بھی محفوظ نہیں۔
موقع فراہم ہوتے ہی وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا۔

ممانی اور امی اٹھ کر دوسرے کمرے میں گئیں تو وہ بھی ان کے پیچھے جانے لگی کہ بلال کی غلاظت سے بھری آواز نے اسے روکا۔

"مزا آیا؟"
بلال کی اس بات پر اس کا دماغ کام کرنا بند کرگیا کہ کیا کہے کیا جواب دے۔
ابھی تو اس نے لڑنا سیکنا شروع کیا تھا اور اچانک اس کی راہ میں حائل یہ شخص کسی اندھیری اور آصیب زدہ غار کی صورت اختیار کرنے لگا ہے کہ اسے اب اس غار سے ہوکر ہی آگے کی راہ طے کرنی ہوگی۔
جو کہ آسان تو ہرگز نہیں ہوگا اس کے لیے۔
کیونکہ آگے چمگادڑوں کے پورے جھنڈ سے عایشہ کا سامنا ہونا باقی ہے۔ جو شاید اس کے وجود نہیں بلکہ روح کے پرخچے اڑانے کے لیے بےتاب ہیں اور عایشہ سب سے انجان اپنے ہی خول میں مزید سمٹنے کی تگ ودو میں کرنے لگی۔
لیکن اکثر وحشی درندے اور بےضمیر انسان کسی کے خول کی کب پرواہ کرتے ہیں وہ تو بس اپنے مطلب کے لیے کسی کے بھی آشیانے کو برباد کرسکتے ہیں۔
پھر وہ آشیانہ کسی کی روح کا ہی کیوں نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عایشہ نے ماموں گھر جانا ترک کر دیا تھا۔
وہ اب زیادہ تر گھر میں رہنے لگی لیکن خوف ابھی بھی اس کے دل میں موجود تھا۔

وہ خود کو اب مصروف رکھنے لگی پڑھائی کے علاؤہ ڈائری لکھنا دوسری کتابیں پڑھنا اس کا مشغلہ بن گیا۔
لیکن وہ اب امی کو اس سب کے بارے میں بتادینے کا سنجیدگی سے سوچ رہی تھی، بس ڈر یہی کہ کیسے کہے کیونکہ امی خاندان کا   پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے بلال بھائی سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتیں تھیں۔
اس نے امی کو بتانے سے پہلے کسی سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ امی کے ساتھ خالہ کے گھر جارہی تھی اس نے سوچا کہ کیوں ناں خالہ کی بیٹیوں سے مشورہ کرے کیونکہ جیسی بھی صحیح وہ تھیں تو لڑکیاں ہی اور اس سے بڑی بھی تھیں، شاید وہ اسے اچھا مشورہ دے دیں۔

وہاں پہنچ کر ان لوگوں نے سب کے ساتھ لنچ کیا پھر امی خالہ کے ساتھ دوسری باتوں میں مصروف ہوگئیں۔
وہ خزینہ اور سندس کے پاس ان کے مشترکہ کمرے میں آکر میٹرس پر ساتھ بیٹھ گئی۔
وہ اسے اگنور کیے اپنی باتیں کررہی تھیں۔
اس نے خود ہی سے مداخلت کی۔

"میں آپ دونوں سے ایک بات شئیر کرلوں؟"

خلاف توقع وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔
اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

"میں آج کل بہت پریشان ہوں بلال بھائی کی وجہ سے۔ وہ بار بار مجھے تنگ کرتے ہیں امی کی غیر موجودگی میں گھر میں آنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر غلط حرکت بھی کرجاتے ہیں"۔

"غلط حرکت کیسی؟"
پہلی بار دونوں بہنیں ناصرف اسے توجہ سے سن رہیں تھیں بلکہ اب اس سے اس میٹر میں بات کرنے میں پہل سندس نے کردی تھی۔
عایشہ کی ہمت بندھی اور اس نے مزید بتانا شروع کر دیا۔

"وہ گھر آئے تھے امی نہیں تھیں اس وقت، وہ مالک مکان کا دروازہ بجا کر اندر آگئے تھے۔ پھر اندر آکر مجھے پکڑنے لگے لیکن میں بھاگ کر ماموں کے گھر چلی گئی۔اس کے بعد میں نے کمرے میں خود کو بند کرنا شروع کردیا اس کے بعد بھی کافی بار وہ گھر آئے مالک مکان کا دروازہ بجا کر لیکن میں نے کھولا نہیں تو خود واپس چلے گئے۔ لیکن اس دن میں امی کے ساتھ ماموں کے گھر میں تھی تب اندھیرے میں انہوں نے مجھے پاؤں سے ٹچ کرنے کی کوشش کی۔
مجھے اب ڈر لگنے لگا ہے سوچ رہی ہوں امی کو بول دوں لیکن ڈر لگتا ہے کہ امی مجھ پر ہی نہ غصہ کریں کیونکہ وہ بلال بھائی سے بہت زیادہ اٹیج ہیں اور شاید میری بات ان کو بری لگے".

اپنے ڈر اور خدشات سب انہیں کہہ کر وہ رلیکسڈ ہوگئی تھی، اتنے عرصے بعد دل ہلکا ہوا تھا۔

"یہ دونوں اتنی بری بھی نہیں ہیں".
عایشہ نے دل میں سوچا۔
لیکن اگلے لمحے ہی اس کی سوچ غلط ہوگئی۔

"آپ کو ہی شوق تھا بلال بھائی کی چہیتی بننے کا اب بنئیے، وہ آدمی اچھا انسان تو ہے ہی نہیں۔ بھائی  بولنے سے کوئی بھائی تھوڑی ہوجاتا ہے۔"

"اور کیا! اور ویسے بھی مجھے نہیں لگتا خالہ جانی کبھی بھی یہ بات سنیں یا برداشت کریں گی۔ کیونکہ وہ بلال بھائی سے بہت زیادہ اٹیج ہیں اور ان کو مان بھی سب سے زیادہ ان پر ہے۔"

"چھوڑو آپی اب ہو بھی کیا سکتا ہے سب کچھ تو ہو ہی چکا ہوگا".

"ہاں جیسا سننے میں لگ رہا مجھے بھی لگتا ہے سب کچھ تو ہو ہی چکا ہوگا۔"

وہ دونوں آپس میں اس پر تبصرے کرنے لگیں۔ لیکن اس کو یہ نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ سب کچھ کیا ہوچکا ہے؟.

"کیا سب کچھ ہوچکا ہے؟"
عایشہ نے بلآخر پوچھ لیا۔

"رہنے دیں آپ اس بات کو آپ کے سمجھ میں کیا آنی آپ تو بچی بنی رہتیں ہیں۔ بہرحال اب خالہ جانی کو بتانا ہے تو بتا کر دیکھ لو مرضی ہے، ویسے لگتا نہیں کہ وہ سمجھیں گی۔"

ان دونوں کی باتوں سے عایشہ کا دل بہت برا ہونے لگا اس لیے وہ اٹھ گئی کیونکہ اسے معلوم تھا اب اس کا مزاق ہی بننا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے تیسے اس نے وہاں وقت کاٹا وہ دونوں مسلسل اسے معنیٰ خیز نظروں سے گھور رہیں تھیں۔
شام میں وہ امی اور بھائی کے ساتھ گھر جانے کے لئے نکل آئی۔
بس میں اتفاق سے بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔
عایشہ سے اب رہا نہیں جارہا تھا وہ مسلسل سوچ کے گھوڑے دوڑائے جارہی تھی۔

"امی کو بتا دوں؟
 کیا کروں؟
 امی ویسے ہی مجھ سے اب چڑنے لگیں ہیں، بولوں کہ نہ بولوں؟
ویسے بھی خزینہ نے کہا تھا کہ خالہ جانی نہیں مانیں گیں۔
واقع امی نہیں مانیں گیں؟
عایشہ بتادو امی کو۔
کم از کم اس اکیلے لڑنے کی مصیبت سے تو جان چھوٹے گی جو ہوگا پھر امی خود دیکھ لیں گیں، ویسے بھی بلال بھائی کو شہہ یہی ہے کہ ان کی اصلیت کوئی نہیں جانتا۔
لیکن امی اگر نہ مانی نہ ساتھ دیا تو مزید نفرت کرنے لگیں گی۔
ٹرائے کرلو عایشہ اور کوئی چارہ نہیں ہے اس کے علاؤہ رسک لینا ہی پڑے گا۔"

اور آخرکار وہ نتیجے پر پہنچ گئی۔

"امی ایک بات کرنی ہے آپ سے".

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

ازقلم
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Happy women's day 2024 ♀️

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan