الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 04
چوتھی قسط۔
وہ ماموں کے گھر سے ممانی اور ان کے بڑے بیٹے بلال بھائی کے ساتھ روانہ ہوئے ایک دن وہاں گزار کر واپس آتے آتے تھوڑا لیٹ ہوگئے کیونکہ راستے میں بس خراب ہوگئی تھی۔
بلال بھائی امی اور ان بہن بھائی کو گھر چھوڑنے آئے تو اس وقت کوئی 10 بج رہے تھے۔
گھر پر ایک محاذ ان کے انتظار میں تھا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں تھے کوئی اتنی دیر ہوتی ہے شام میں آنے کا بولا تھا رات کے 10 بج رہے مطلب کوئی احساس نہیں آزادی مل گئی ہے بہت".
دادو بنا فل اسٹاپ اور کوما کے بولے جارہی تھی۔
"راستے میں بس خراب ہوگئی تھی اور میں اکیلی نہیں تھی بھابھی بلال بھی ساتھ تھے میرے ابھی بھی آپ کے سامنے بیٹھا ہے بلال یہ خود مجھے گھر تک چھوڑنے آیا ہے".
امی سے رہا نہ گیا انہوں نے فوراً جواب دیا۔
"تو یہ کوئی طریقہ تو نہیں ہے یہاں میں اکیلی پریشان ہورہی تھی۔"
امی اور بلال بھائی کو غصہ تو بہت آرہا تھا مگر وہ خاموش تھے کہ بحث فضول تھی۔
پی ٹی سی ایل پر کسی کا فون آنے لگا عایشہ نے جاکر اٹھایا تو وہاں سے پھوپھو اس کی آواز سے کے دادو کی طرح بنا فل اسٹاپ اور کوما کے شروع تھی۔
عایشہ نے فون سایڈ پر رکھا اور امی سے کہا جا کر سن لیں۔
"کوئی طریقہ ہے کوئی ڈھنگ ہیں تمہیں اتنی دیر ہوتی ہے میری ماں بےچاری اکیلی اس عمر میں پریشان بیٹھی تھی کوئی احساس نہیں ہے زمہ داری کا۔"
پھوپھو امی کے ہیلو پر شروع ہوچکی تھی۔
"بس میں نے نہیں خراب کی تھی اور میں نہ اکیلی تھی نہ ابھی گھر اکیلے آی ہوں اتنے بڑے بلال کے ساتھ آئی ہوں".
امی نے بھی پھوپھو کی بات کاٹی۔
"تو ایک فون تو کر سکتی تھی کہیں سے کہ گاڑی خراب ہوگئی ہے"
"جنگل میں میرے ابا نے دوکان تو کھولی نہیں تھی کہ آؤ بہن پہلے سسرالیوں کو اطلاع کردوں کہ گاڑی خراب ہوگئی ہے".
"یہ تم بات کس انداز میں کر رہی ہو ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی؟ بھائی جان نہیں رہے تو تمہارے بڑے پر نکل آئے ہیں۔"
امی نے غصے میں فون کاٹ دیا تو دادو نے جارہانہ انداز میں امی کو برا بھلا بولنا شروع کر دیا۔
"تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کا فون کاٹنے کی؟"
"میں اس سے رشتے میں بڑی ہوں میری ماں نہیں ہے وہ اپنے گھر کی مالک ہے میں کوئی اس کو جوابدہ نہیں ہوتی".
"تو میرا کھاتی ہے سمجھی میں کھلاتی ہوں تو تو میری بھی سنے گی اور میری بیٹی کی بھی سننی پڑے گی سمجھی".
اس بات پر امی نے اپنا اپا کھودیا۔
"آپ نہیں کھلاتی اللّٰہ کھلاتا ہے میرے شوہر پیسے دے کر گئے ہیں اس سےکھاتے ہیں ہم".
"وہ میرا پیسہ ہے میرے بیٹے نے مجھے دیا ہے میرا کھاتی ہے تو اور اب فون کر معافی مانگ میری بیٹی سے۔"
"کیا کہا آپ کھلاتی ہیں؟
میں آج ابھی سے اپنا چولہا الگ کر رہی ہوں خود نوکری کروں گی اپنے بچوں کو بھی پالوں گی آپ کی اور آپ کی بیٹی کے رحم و کرم پہ نہیں ہوں میں".
یہ بول کر امی اوپر آگئی بچوں اور بلال بھائی کو لے کر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بات سنو بلال ابھی میرے ساتھ چلو مجھے دبل روٹی اور جیم وغیرہ لانا ہے آج کے بعد ان کا ایک نوالہ حرام ہے۔ عایشہ تم یہی رہو گیٹ اندر سے بند کر لینا دادو جتنا کھٹکھٹایں نہ کھولنا جب تک میں نہیں آجاتی ان کا بھروسا نہیں ہے یہ میرے کمرے میں پہلے بھی گھس کر سامان لے جاچکی ہیں۔"
امی کے بلال کے ساتھ جانے کے فوراً بعد دادو محلے والی عورتوں کے ساتھ اوپر آی محلے والیاں عایشہ کے پیچھے پڑ گئی کہ گیٹ کھولے لیکن جیسا انداز وہ دادو پھوپھو کا دیکھ چکی تھی اسے ان سے نفرت ہو رہی تھی۔
"میں گیٹ نہیں کھول رہی جب تک امی نہیں آجاتیں".
وہ رونے لگی اس نے کبھی نہیں سوچا تھا دادو پھوپھو ایسا برتاؤ بھی کرسکتیں ہیں۔
امی کے آنے کے بعد اس انہیں ساری بات بتادی۔
بلال بھائی امی سے اجازت لے کر چلے گئے کہ ان کو اگر ضرورت ہو تو وہ فون کردیں وہ آجائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 12 بجے تک پھوپھو پھوپھا اور وہ رشتے دار بھی اپنی بیگم کے ساتھ آگئے جن کے پاس پپا کے پروویڈنٹ فنڈ کے پیسے ڈپازٹ کیے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کل کے لیے کالج کے لیے اپنا یونیفارم پریس کر رہی تھی کہ وہ آنٹی تشریف لائیں۔
امی کو بڑے بڑے لیکچر دینے لگی۔
"جس کے کہنے پہ یہاں مجھے لیکچر دینے آئی ہیں آپ بہتر ہوگا انہیں جا کر اخلاقیات سکھائیں".
"میں یہاں کسی کے کہنے پہ نہیں آئی خود سے آئی ہوں".
اس بات پر عایشہ سے رہا نہ گیا
"آنٹی تو کیا آپ کو الہام ہوا تھا کہ ہمارے گھر جھگڑا ہوا ہے".
"Will you shut your mouth"
آنٹی سے برداشت نہ ہوا فوراً اسے جھاڑ دیا۔
پھر وہ واپس چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں دباؤ کی ایک حد ہوتی ہے کسی چیز کو حد سے زیادہ دبانے کی کوشش کی جائے تو وہ چیز اس سے زیادہ پریشر سے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔
یہی انسانی ذہن کے ساتھ معاملات ہیں۔
مصلحت کے تحت انسان برداشت تو کرتا ہے لیکن جب بے جا دباؤ اور روک ٹوک بڑھ جاتا ہے تو بغاوت بہت شدت سے ابھرتی ہے۔
جاری ہے۔
ازقلم،
عریشہ عابد۔
Comments
Post a Comment