الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 02



دوسری قسط۔

ہوش کی دنیا میں واپس آکر اس کی پہلی نظر امی پر پڑی جو روتی ہوئی آرہی تھی اور آتے ہی ان دونوں بہن بھائی کو لپٹا لیا

"پپا نہیں رہے پپا چلے گئے"
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اسکی نظر بھائی پر پڑی وہ رو رہا تھا۔
اس نے سوچا ایسے کیسے ہو سکتا ہے بھائی کتنا چھوٹا ہے ابھی 10 سال کا بھی  نہیں ہوا میں کتنی چھوٹی ہوں۔
ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟
وہ پاگلوں کی طرح اندھا دھند بھاگی "پپا پپا" کرتی ہوئی۔
کسی نے اس کو پکڑا تمیز سکھانے کی کوشش کی اس نے پکڑنے والے کو ہی تھپڑ دے مارا، بھلا کون تھیں وہ آج تک نہیں معلوم۔

اس کے کان کی سونے کی بالی گر گئی کھینچا تانی میں
کوئی دوسری بےچاری واپس پہنانے لگی تو وہ حلق کے بل چلائی،
"ہاتھ نہیں لگانا مجھے"

امی اس کو پکڑنے لگی خاموش کرانے لگی
"اچھے بیٹا بیٹھ جاؤ پپا کو ابھی لے کر آرہے ہیں بیٹا بھائی کو دیکھو"

اور امی بھی ضبط کھو بیٹھیں۔

اسے کچھ نہیں سمجھ آرہا تھا۔
 دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی۔

(نہیں پپا نہیں جاسکتے جھوٹ ہے یہ ڈاکٹر نے دیکھا نہیں ہوگا۔
نہیں جب تک میں نہیں دیکھ لیتی میں نہیں مانتی
پپا زندہ ہیں۔
میں نے تو منت مانی ہے دادو بولتی ہیں یہ منت رد نہیں ہوتی۔
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا
اللّہ میاں آپ ایسا نہیں کرسکتے میں نے آپ کو رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا واسطہ دیا، جناب سیدہ رض کا واسطہ دیا پھر ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔
آپ نے میرے واسطے بھی نہ سنے، نہیں اللّٰہ میاں مجھے میرے پپا واپس چاہیے)

بے دھیانی میں وہ خدا سے شکوہ کیے جارہی تھی۔

اچانک باہر ایمبولینس کی آواز آتی ہے۔
محلے کے لوگ پپا کو لے کر اندر آنے لگتے ہیں اور کمرے میں لٹا دیتے ہیں۔
ایک جاہل ترین دادو کی چمچی ان سے کہتی ہے ابھی مردے کا جوڑا صدقہ کرو۔
دادو امی کے پیچھے پڑ جاتی ہیں کہ ابھی جوڑا لے کر آؤ اوپر کمرے سے، کچھ محلے کی عورتوں کو امی پر ترس آتا ہے تو وہ آنہیں سہارا دے کر لے جاتی ہیں کہ
ان جاہلوں کی نام نہاد رسومات ادا کردی جائیں۔

وہ اپنے پورے حلق سے چلا کر پوری طاقت لگا کر پپا کو جھنجھوڑنے لگتی ہے۔

"اٹھیں ابھی اٹھیں مجھے نہیں چھوڑ کے جاسکتے آپ مجھے لے کر جائیں یہ لوگ کھاجاینگے مجھے لے کر جائیں، آپ مجھے نہیں چھوڑ سکتے پپا اٹھیں ابھی ابھی ابھیییی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا کوئی نہیں ہوگا پپا اٹھ جائیں پلیز
واپس آجائیں پلیز"

محلے کی عورتیں اسے روک رہی تھی لیکن وہ پوری طاقت لگا رہی تھی کہ شاید پپا اس کے جھنجھوڑنے سے اٹھ جائیں۔
اور پھر وہ تھک کر بے ہوش ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوش آیا تو وہ پھر اٹھ کر بھاگنے لگی پپاپپا کر کے پھر امی نے پکڑ کر بٹھایا
دادو وغیرہ نے جھاڑا ہوش کرو پاگل مت بنو۔

وہ سہم کر بیٹھ گئی۔
اب اس کا دماغ الگ ہی فلم چلانے لگا کہ اب کیا ہوگا؟

دادو پھوپھو تو امی کو نہ باہر جانے دیتی ہیں نہ ان کے گھر والوں سے فون پر بھی بات کرنے دیتی وہ تو پپا تھے تو آسرا تھا اب یہ لوگ کیا کرینگی؟

تبھی دادو امی کو کہتی ہیں
"میں نے تمہیں پیسے دیے تھے کتنے بچے؟"

 امی ہکا بکا ان کی شکل دیکھنے لگتی ہیں
تو وہ جا کر چاچو سے پوچھنے لگتی ہیں۔
دفنانے کے انتظامات کا
 دن میں طے پایا۔

امی اس کو سمجھاتی ہیں کلمہ پڑھو پپا کو کلمے کا تحفہ دو بیٹا۔

اسے بار بار کلمہ بھولنے لگتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللّہ اللّٰہ کر کے رات گزرتی ہے دن کا آغاز ہوتا ہے

لوگوں کا رش بڑھنے لگتا ہے۔
پپا محلے کے کونسلر کی حیثیت سے محلے والوں کے کافی عزیز تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہر کوئی حیران کہ ایسا کیسے ہو گیا۔ ابھی تو ٹھیک تھے کل تو بھلا چنگا دیکھا تھا آج انتقال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مطلبی رشتےداروں کی آمد بھی شروع ہوگئی۔

پپا کے ناک سے مسلسل خون رس رہا تھا جسے بار بار روی بدل بدل کر روکا جارہا تھا  اور حیرت انگیز طور پر ان کا جسم نہ اکڑا تھا، نہ ٹھنڈا پڑا تھا نہ ہی بدبو آی تھی اتنی گرمی میں بھی میت ساری رات گھر میں ہی رکھی گئی پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

 پپا کو لے کر جب جانے لگے تو وہ رو کر بھاگی اور گرنے لگی پیچھے یہی سب پھوپھو کرنے لگی اور اس کے اوپر گریں۔
سب پھوپھو کو چپ کرا کر اندر لے گئے وہ باہر بیٹھی رہ گئی سب کو پھوپھو دادو کا غم بڑا لگ رہا تھا اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔
تب ایک جاننے والی نے کہا بیٹا امی کو دیکھو وہ کچھ بول نہیں رہی ہیں بلکل خاموش ہو گئی ہیں۔
تب وہ اندر بھاگی۔
اندر جا کر دیکھا تو امی سن بیٹھی ہوئی تھی بول نہیں رہی تھی۔
سب ان کو بلوانے کی کوشش کررہے تھے۔
تھوڑی دیر میں وہ بہتر ہوئی لیکن بلکل خاموش ہو گئیں تھیں۔

کسی کو ان بہن بھائی کا ہوش نہیں تھا دادو پھوپھو اپنی ہمدردی بٹورنے میں لگی ہوئی تھیں امی گم سم بیٹھی تھی۔

دوسرے دن اس کی دوست اپنی امی کے ساتھ ایک ڈبا لے کے آئی خاموشی سے ان بہن بھائی کو اوپر کمرے میں لے جا کے کھانا کھلایا گیا۔
آنٹی کہچڑی اور دہی لای تھی کہ کب سے دونوں بھوکے ہیں ہلکی غذا دی جائے۔ کیونکہ باقی سب کو تو رشتے داروں نے دنیا دکھاوے کے لیے سب کے سامنے دو دو نوالہ کر کے کھلا دیا تھا بس یہی بھائی بہن بھوکے تھے۔

وہ ایک کہچڑی نہیں تھی وہ سہارا تھا جسے ان کو سخت ضرورت تھی۔
وہ محبت بھرا لمس تھا جو ان کا غم بانٹ رہا تھا۔
ہزاروں مہنگے اور خوشنما کھانے ایک طرف تھے اور وہ سادہ سی کہچڑی اس وقت عایشہ کے لیے ان سب سے بھاری تھی۔

شاید آنٹی سہارا نہ دیتی تو وہ کبھی نہ سنبھل پاتی۔

یہ ایک گھنٹہ اسے زہنی سکون دینے میں بہت کارگر ثابت ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اس کی سالگرہ تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے منحوس سالگرہ۔

پپا کا سویم رکھا گیا دادو پھوپھو کے وہی نام نہاد رسومات اور جھوٹے شان و شوکت کا خمیازہ اب انہیں بھگتنا تھا۔

بڑے پیمانے پر سوئم کیا گیا کہ پپا کا بہت نام و شہرت ہے تو دادو پھوپھو کی بھی دھاک بیٹھے ہر آئے بندے کو یاسین شریف کا ہدیہ پیش کیا گیا۔

وہ الگ بات ہے کہ اس سب کا سارا خرچہ پھوپھو نے امی سے لیا کہ ان کو دادو سے لیتے لاج آتی ہے لیکن بیوہ بھابھی سے نہیں۔

اس دوران ایک عجیب سی بات اس نے نوٹ کی کہ دادو ایسے نارمل بیٹھے باتیں کر رہی ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی کوئی دروازے سے داخل ہوتا ہے وہ سسک سسک کر رونا شروع کر دیتی ہیں اور جب تک آنے والا موجود رہتا ہے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پھوپھو اور ان کو ہی غم دور کریں ان ہی سے عیادت کریں اس کو اور امی کو کسی سے بات کرتے دیکھ عجیب جاہلانہ برتاؤ شروع کر دیتی کہ میرا بیٹا گیا میرا بھائی گیا وغیرہ وغیرہ۔

اس دوران پیپر کے لیے اسکی دوست کی امی نے اسکی بہت مدد کی وہ اسے بھی اپنی بیٹی کے ساتھ لے کر جاتی سینٹر اور ساتھ لے کر گھر واپس چھوڑنے بھی آتیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بیچ اس کے ساتھ عجیب واقعات ہوتے رہے وہ بے ہوش ہوجاتی ایک مرتبہ ٹیوشن میں بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہو گئی۔
دادو پھوپھو اس کو کوستی کہ بار بار بےہوش ہوجاتی ہے لوگ سمجھیں گے لڑکی میں عیب ہے کوئی شادی نہیں کرے گا۔
بار بار کی لعن طعن کا یہ اثر ہوا کہ اس کو چکراتے سر میں بھی محسوس ہوتا کہ اس کو چکر نہیں آرہے وہ جھوٹ بولتی ہے ڈراما کر رہی ہے۔

اسی دماغی جنگ اور لوگوں کی باتوں کی وجہ سے وہ ایک دن دل برداشتہ ہو کر باتھ روم میں چھپ کر رونے لگی جب وہ باہر آئی تو اسے پپا کی آواز آئی
"ماں"...
پپا اس کو پیار سے ماں بلاتے تھے اور جب جب وہ روتی تھی تو اسی انداز میں بلاتے تھے۔

وہ دیوانوں کی طرح دادو پھوپھو اور امی کو بتانے گئی کہ پپا کی آواز آئی ہے اس نے پپا کی آواز سنی
جس پر سب نے اسے پاگل نفسیاتی اور اسی قسم کی لعن طعن شروع کر دی تو وہ خاموش ہوگئی۔

لیکن اس بیچ اس قسم کے اور واقعات ہونے پر بھی اس نے کسی کو نہیں بولا کیونکہ جب وہ بولتی پھوپھو دادو یا تو لعن طعن کرتی یا اپنے خواب سنانے لگتی کہ پپا نے خواب میں آکر یہ کہا یا یہ کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی تو اصل معرکے باقی تھے۔
پیسہ اور برا وقت وہ شے ہیں جو اچھے اچھوں کی اصلیت کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
پھر سب واضح ہو جاتا ہے نیتیں بھی اور مقاصد بھی۔

اس لیے برے وقت پر افسردہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں کھرے کھوٹے کی پہچان کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔
کیونکہ اللّٰہ رب العزت اپنے بندوں کو اتنی ہی آزمائش سے گزارتے ہیں جتنا بندوں کی برداشت ہوتی ہے۔

کہتے ہیں وقت سے پہلے اور نصیب سے زیادہ کسی کو نہیں ملتا۔
لیکن نسل انسانی بھول جاتی ہے ہر بات ہوس کا شکار ہو کر۔

پپا کے پروویڈنٹ فنڈ کا پروسیجر ابھی شروع بھی نہیں ہوا تو دادو پھوپھو نے پپا کے آفس والوں کو فون کرکے دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ سب دادو کے نام ہو۔

وہ تو شکر ہے کہ پپا کی ول نکل آئی آفس ریکارڈز میں کہ جو بھی اماونٹ ہوگا وہ آدھا اہلیہ اور آدھا والدہ کے نام ہوگا۔

اس طرح پپا کے آفس سے کوئی 8.5 لاکھ کی رقم آئی جس میں 1.5 لاکھ انشورنس کے ملے تھے۔
اس حساب سے دادو اورامی کو 4.25 لاکھ کے چیک دیے گئے جسے امی پر دباؤ ڈال کر دادو نے جہاں جاننے والوں میں انویسٹ کیا تھا وہی انویسٹ کروایا گیا جس کے ماہانہ 4250 روپے بطور پرافٹ کے ملتے جس میں سے 4000 روپے پھوپھو لے لیتی آخر کو پپا کی قرضے والی کمیٹی بھی بھرنی تھی دادو سے لیتے پھوپھو کو شرم آتی تھی اور قرض معاف کر کے وہ اپنے بھائی کی روح پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی اسلئے کمیٹی امی کو بھرنی تھی اب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عدت کے دن امی پر آسان نہیں تھے۔
دادو کی وہی جاہل رشتے دار عورت کا دادو کے ساتھ مل کر دباؤ تھا کہ امی چاچو سے پردہ نہ کریں وہ تو رشتے میں چھوٹا ہے ایک گھر میں رہ کر کوئی ضروری نہیں، ہاں لیکن! اپنے سگے بھائی کے بیٹوں سے بھائی سے پردہ کریں۔

تب پتہ نہیں کہاں سے امی میں ایک دم جلال آیا انہوں نے کھری کھری سنا دیں

"میں پڑھی لکھی ہوں جو ضرورت ہو گی قرآن حدیث سے مدد لے لونگی ان مذہبی معاملات میں زیبن خالا جیسی جاہل عورت سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں۔
دیور رشتے میں چھوٹا ہو گا عمر میں بڑا ہے مجھ سے۔ کس سے پردہ کرنا ہے کس سے نہیں مجھے معلوم ہے."

چاچو سائیکو پیشنٹ تھے جس کی وجہ سے ان کی شادی بھی نہیں ہو پارہی تھی پپا کے سویم کی دوران کچھ فسادی رشتے داروں نے یہ شوشہ چھوڑا تھا امی کی شادی چاچو سے کردی جائے جس کی وجہ سے پردہ نہ کرنے پر بضد تھے لیکن امی نہ مانی اور دباؤ ڈالنے پر دھمکی دےدی کہ زیادہ زبردستی کی گئی تو وہ اپنے بھائی کے گھر جا کر عدت کرینگی پھر دنیا کو جواب یہ لوگ خود دیں تو سارے وقتی طور پر تو خاموش ہوگئے
لیکن اس بات پر نئے نئے مسائل کھڑے کیے گئے۔

امی سے کہا گیا کہ وہ بیٹھی رہینگی تو پیر بندھ جائیں گے۔ لہذا وہ چلیں پھریں کام کریں۔
دیور نندوی سوفوں پر بیٹھے ہوتے اور امی  بڑی چادر کا گھونٹ  نکال کر جھاڑو پوچھا کرتی۔
عایشہ کام کرنے کی کوشش کرتی تو اسے مین میخ نکال کر منع کر دیا جاتا کہ اس سے کام نہیں ہوتا صحیح اور امی سے ہی کروایا جاتا۔

امی کے میکے والے آتے تو زلیل کیا جاتا باتیں بنائی جاتی لیکن وہ اب آرہے تھے ملنے ملانے اتنے سالوں بعد۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

ازقلم
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Happy women's day 2024 ♀️

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan