الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 09





نویں قسط۔

وقت کا کام ہے گزرنا وہ نہ کبھی کسی کے لیے رکا ہے نہ کبھی رکے گا۔
روانی کائنات کا نظام ہے۔ ٹھہر جانے سے تسلسل ختم ہوجاتا ہے اور زندگی میں تازگی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔

اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو شاید سہمی ہی رہتی لیکن عایشہ کو ناجانے اللّٰہ نے کون سی خاک سے تشکیل دیا تھا کہ وہ کچھ عرصہ ہی زیراثر رہ پائ پھر سب بھول کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئی۔

کبھی کبھی جب وہ کالج کے راستے میں ہوتی تو وہ سوچتی تھی کہ ایک وہ وقت بھی تھا جب کبھی وہ اکیلے باہر جانا تو دور گھر سے دکان تک کبھی کوئی چیز لینے تک نہ گئی تھی ہمیشہ اس کے پپا ان دونوں بہن بھائی کو ہر چیز گھر میں مہیاء کرتے تھے۔ اور آج وہ اتنے دور کا سفر اکیلے پبلک ٹرانسپورٹ کے زریعے انجان لوگوں کے بیچ طے کر رہی ہوتی تھی۔

شروع شروع میں تو عایشہ کو بہت ڈر لگتا تھا کہ اگر وہ زرا سا لڑکھڑائ تو بس میں گر جائے گی اس کی بڑی سبکی ہوگی۔
کیونکہ کبھی بس میں کھڑا ہونا تو دور بس کا سفر بھی کبھی شاز و نادر دادو کے ساتھ ہی کیا ہوگا، وہ بھی پپا دادو کو بول کے بھیجتے تھے کہ ان دونوں بہن بھائی کی سیٹ کرایہ دے کر لے لیجیے گا تاکہ ان کے بچے سکون سے بس کا سفر کرسکیں۔
اور آج وہ کبھی کبھی بس فل ہونے پر ایک پائیدان پر کھڑے ہوکر سفر کرلیتی کہ ناجانے دوسری گاڑی کب آئے اور کیا پتہ وہ بھی ایسے ہی لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہو۔

ایک مرتبہ عایشہ نے یہی سوچ کر ایک گاڑی مس کی کہ اگلی جو بھی آئے گی اس نمبر کی اس میں سوار ہو جائے گی۔
اگلی گاڑی کے انتظار میں گھنٹہ کھڑی رہی تھی وہ اور جب بس آئی تو فل بھری ہوئی مجبوراً وہ پائیدان پر کھڑے ہوکر سفر کرنے لگی۔
منزل پر اتر کر اس کا تھکن سے برا حال ہوگیا تھا۔
اسٹاپ سے گھر تک کا راستہ کوئی آدھا کلومیٹر کا تھا اور مین مارکیٹ کے راستے میں دھوپ بہت تیز تھی۔ مجبوراً اس نے گلیوں کا انتخاب کیا۔
پورے راستے پیدل اسے لگ رہا تھا وہ چلتے چلتے سو جائے گی۔ جیسے تیسے گھر پہنچی تو دل کر رہا تھا سارے تالے اور دروازے اپنے آپ کھل جائیں، بند ہوتی آنکھوں سے اس نے دروازہ کھولا اور بنا یونیفارم اور جوتے اتارے وہ بیڈ پر سوگئی تھی، کوئی ایک گھنٹے  سوکر جب اٹھی تھی تو اس کے ہواس قابو میں آئے تھے۔

اسی وجہ سے اس کا رنگ جل گیا تھا جس پر تمام کزنز اسے کالی اور ان فٹ کہہ کر مخاطب کرتی تھی کیونکہ وہ سب خود فارمولا کریم لگا کر کافی خوش رنگ اور گوری ہوچکی جبکہ عایشہ کا ان سب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
ہاں اپنے پپا کی زندگی میں اسے پرفیوم، ڈیوڈرنٹ اور نارمل اسکن لوشنز استعمال کرنے کا بہت شوق تھا اور اس کے پپا اس کی بنا کہے ہر ضرورت پوری بھی کرتے تھے۔
مگر اب وہ امی سے بہت کم فرمائش کرتی تھی کیونکہ وہ اپنی امی کی دن رات کی محنت کو سمجھنے لگی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالہ کے گھر میلاد تھا امی آفس سے خالہ کے گھر جاچکی تھیں، وہ بھائی کو لے کر ممانی کے ساتھ روانہ ہوئی تھی۔
کپڑے اور دوسرا سامان اس نے بیگ میں بھر لیا تھا۔

وہاں پہنچ کر وہ تیار ہونے چلی گئی۔

کاٹن کا کلیوں والا ریڈ اینڈ مسٹرڈ فراک اور مسٹرڈ چوڑیدار پاجامہ اور چنا ہوا دوپٹہ زیب تن کیے ہلکا سا فیس پاؤڈر کاجل اور لپ گلوس میں وہ اچھی لگ رہی تھی۔ بالوں کو اس نے پونی ٹیل بنا لیا تھا کیونکہ کبھی کھلے چھوڑنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ ہر جگہ وہ پونی ٹیل یا سادہ چوٹی ہی بنا لیا کرتی تھی۔

خالہ کی بیٹیاں بہت اچھی لگ رہیں تھیں ان سب نے ہاف بال کیچر لگا کے کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔
انہیں دیکھ کر عایشہ کو رشک آتا وہ سب اس کے نزدیک اس سے بہتر تھیں جبکہ اپنا آپ اسے کبھی اچھا نہیں لگ پاتا تھا۔

اپنی تسلی کے لیے اس نے امی سے پوچھا کہ وہ کیسی لگ رہی ہے جس کا جواب امی نے بنا دیکھے ہی دےدیا کہ ہاں صحیح ہے۔

"امی کم از کم ایک مرتبہ دیکھ کر تو جواب دے دیں میں کیسی لگ رہی ہوں"
اس نے اپنی تسلی کے لیے اصرار کیا کیونکہ کسی اور سے پوچھنا اپنی بےعزتی کرانے جیسا تھا۔

"ہاں صحیح ہے بھئی بول دیا ناں"
وہی بنا دیکھے جواب وہ خاموش ہوگئی۔

میلاد شروع ہوچکا تھا۔
میلاد پڑھنے خالہ کی بیٹیوں سندس اور خزینہ کی دوست رابعہ آئی تھی۔
اس سے عایشہ کی بھی اچھی سلام دعا ہوگئی تھی خالہ کے گھر جب وہ شروع میں رکے تھے تب۔ 

رابعہ نے بہت جوبصورت سماں باندھ دیا تھا۔
اس کی آواز بہت پیاری تھی۔ نعت رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اس نے ایسے پیش کی کہ سب کھو سے گئے تھے۔

پھر ناجانے کیوں خزینہ نے اسے ہٹا کر سندس کو بٹھا دیا کہ باقی میلاد اب سندس پڑھ لے گی۔
ان دونوں بہنوں کی جیلیسی میلاد جیسے مبارک موقع پر بھی نہ تھمی تھی۔

میلاد ختم ہونے کے بعد جب سب آپس میں مصافحہ کرنے لگے تب وہ بھی رابعہ اور خزینہ سندس کے پاس آکر بیٹھ گئی ماہا تو آتے ہی سندس کے ساتھ ساتھ تھی، بس اس کو وہ لوگ نظر انداز کرتیں تھیں۔

"عایشہ فراک بہت پیارا لگ رہا ہے تمھارا"
رابعہ نے تعریف کی۔

"تھینک یو"
وہ کھلے دل سے مسکرائی ایک چمک سی آگئی تھی اس کی آنکھوں میں۔

"تم کیوں تھینک یو بول رہی ہو فراک کو پیارا کہا ہے تمہیں نہیں"
خزینہ نے ہنس کر اس کا مزاق اڑایا۔

وہ ایک دم خاموش ہوگئی وہ چمک جو کچھ لمحے پہلے اس کی آنکھوں میں آئی تھی وہ ایک دم غائب ہو گئی تھی۔
تب رابعہ نے بولا

"تم بھی پیاری لگ رہی ہو یار"

"ویسے آپ کی چوائس کی داد دینی پڑے گی رنگ آپ کا سانولا اور کپڑے مسٹرڈ،
کپڑے آپ سے زیادہ گورے لگ رہے ہیں"
سندس کہہ کر ہنسنے لگی اور وہ سوچنے لگی رابعہ نے تعریف کی ہی کیوں نہ کرتی تو اچھا تھا کیونکہ اب پندرہ بیس منٹ یہی سننا تھا کہ وہ بہنیں بہت اعلیٰ ذوق و حسین ہیں جو پہن لیں اچھا لگ جاتا ہے۔ اور یہ عایشہ ہی جانتی تھی کہ اس اچھا لگنے کے لیے جب وہ ان کے گھر آئی تھی تو دونوں بہنیں بلیچ لگا کر بیٹھیں تھیں۔
لیکن اسے کسی کو زلیل کرنے کا فن ابھی آیا نہیں تھا ابھی بہت سے مرحلے باقی تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب رشتے دار خالہ کے گھر رک گئے تھے رات میں سب کزنز چھت پر بیٹھے تھے وہ بھی گئی تو اس کی ہر بات پر منہ بنا کر اس کو نظر انداز کرکے اسے محسوس کرایا گیا کہ وہ مس فٹ ہے ان لوگوں میں۔

وہ وہاں سے اٹھ کر سب بڑوں کی محفل میں آگئی۔
بڑی خالہ کے پیر میں درد تھا اس نے انہیں پیر دبانے کی آفر کی جو انھوں نے فوراً ہاں کہہ دی۔
اسے کسی بھی بڑے کے پیر دبا کر بہت سکون ملتا تھا۔
اپنے امی پپا دادو پھوپھو سب کی وہ ایسے ہی خدمت کر کے خوش ہوتی تھی۔

جہاں جہاں اسے اپنے پیروں میں درد ہوتا تھا وہ دوسروں کے وہی دبا کر سکون محسوس کرتی تھی جیسے اس کے اپنے پیر کوئی دبا رہا ہو۔

بڑی خالہ سکون میں آنے لگی تھیں لیکن چھوٹی خالہ بےسکون ہوچکی تھی۔

خزینہ کی منگنی بڑی خالہ کے بڑے بیٹے سے ہوچکی تھی اور نازی خالہ کی یہ سوچ کر آگ لگ رہی تھی کہ یہ عایشہ کیوں ان کی بیٹی کی ساس کے پیر دبا رہی ہے ضرور ان کا دوسرا بیٹا پھنسانے کے چکر ہونگے۔

اور وہ اس فیملی پالیٹکس سے انجان بڑی خالہ کو خوش دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات 12 بجے کے بعد سب نان کو تیل پانی لگا کر فرائی کر کے قورمے کے ساتھ کھانے لگے۔

اس بیچ اسے کچن میں جانے نہیں دیا گیا اسے اب کوفت ہونے لگی۔
دو ایک بار امی کو ان لوگوں کے رویوں کا احساس دلانے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے ہی لتاڑ ڈالا۔

"ساری زندگی میری تمہارے باپ اور دادو پھوپھو نے اجیرن کردی اب تم کرلو۔ وہ بات نہیں کررہے تو تم کرلو لیکن نہیں تم کیوں کرو گی تم بھی تو اپنی دادو پھوپھو کی طرح لیچڑ نخدیلی اور آگ لگاؤ ہو".

"مگر امی میں جب بھی ان  لوگوں کے پاس جاتی ہوں مجھے اگنور کرتے ہیں کوئی بات کرنے لگوں تو بات کاٹ کر اپنی باتیں آپس میں کرنے لگتیں ہیں"

"عایشہ میرے دماغ میں مزید زور نہیں ہے کے میں ہر ایک سے لڑتی رہوں"

"امی میں نے لڑنے کا کب کہا ہے"
وہ رودینے کو تھی۔
امی اسے نفرت سے گھورتے ہوئے چلی گئی۔
ہاں یہ نفرت ہی تو تھی اس کے باپ دادی اور پھوپھو کی نفرت جو اسے برداشت کرنی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بات اسے اچھے سے سمجھ میں آگئی تھی کہ ہر لڑکی کزن ننھیال میں صرف اسی کزن کو منہ لگاتی تھی جس کے بڑے بھائی ہوتے تھے تاکہ بہن سے سہیلیوں والی محبت جتا کر بھائیوں کو مرعوب کیا جاسکے چونکہ اس کا اور چھوٹے ماموں کی بیٹیوں کا کوئی بڑا بھائی تھا نہیں تو ان لوگوں کے ساتھ یہی رویہ رواں تھا۔

یہ گندی ذہنیت اس کے ددھیال میں کسی کی نہیں تھی سب آپس میں مل جل کر بیٹھتی تھیں جب ملاقات ہوتی تھی کوئی کسی کو زلیل کرنا تو دور کمتر نہیں سمجھتا تھا۔ ہر محفل میں ہنس کھیل کر وقت اچھے سے کاٹا جاتا تھا وہاں۔ دور قریب کی سب کزنز کی آپس میں گھری دوستی تھی۔

مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ ہر کوئی بس خاندانی سیاست میں مشغول تھا۔
کیونکہ وجہ بڑوں کی سوچ تھی جیسے بڑے صرف فیملی پالیٹکس کرتے وہی بچے کرتے رہتے تھے۔
اس کے ننھیال میں اس نے باہمی میل ملاپ کا فقدان بہت اچھے سے محسوس کرلیا تھا۔

چھوٹے ماموں کی دو ہی  بیٹیاں تھیں جو کہ اسکول گرلز تھی عایشہ سے چھوٹی جبکہ ماہا عایشہ کی ہم عمر تھی۔
سندس عایشہ سے دو سال جبکہ خزینہ چار سال بڑی تھی۔
تمام لڑکے ماہا سندس اور خزینہ الگ جا کر تفریح کر رہے تھے صرف وہ اور چھوٹے ماموں کی عینی اور ثمین اکیلے بیٹھی تھی۔

فیصل نے اس سے آکر کہا 
"عایشہ مجھے بھی روٹی تل دو"
وہ کچن میں جاکر روٹی تلنے لگی سب کزنز ساتھ بیٹھے کھا بھی رہے تھے گلے بھی لگا رہے تھے۔

خزینہ کا بڑا بھائی انور بولا،

"عایشہ پانی لا کر دینا"

اس آرڈر پر اس کی تپ چکی تھی لیکن وہ چپ رہی۔

"حد ہے اس لڑکی کو ایک کام بولا وہ بھی نہیں کیا بھئی تم نے"
انور نے اسے سب کے سامنے زلیل کیا۔

"میں اپنے بھائی کے لیے کھانا گرم کررہی ہوں آپ کی بہنیں پاس بیٹھی ہیں ان کو بولیں پلا دیں گی".
اس نے فوراً جواب منہ پر دےمارا۔

"لائیے انور بھائی میں دے دیتی ہوں"۔
ماہا نے فوراً اپنے نمبر بڑھاے

"دیکھو یہ کتنی اچھی ہے فوراً لادیا"
انور نے اسے زلیل کرنا چاہا۔

"مجھے غیروں کے بھائی کی پیاس سے زیادہ اپنے بھائی کی بھوک عزیز ہے، وہ کر سکتی ہے خوشامدیں۔ میرے لیے نخرے اٹھانے کے لیے ناں میرا سگا بھائی کافی ہے مجھے نامحرموں کو مرعوب کرنے کا کوئی چسکا نہیں ہے".

اس کے جواب پر سب کزنز منہ کھولے اسے دیکھنے لگے
اور وہ خود بھی حیران تھی کہ ایسا بروقت جواب اس کے دماغ میں آیا کیسے وہ تو ان لوگوں سے بس ڈرتی رہتی تھی۔

اس کے بعد سندس نے ایک بار اسے آرڈر دینے کی کوشش کی لیکن اس کا بگڑا تیور دیکھ کر پھر اس کا جواب سن کر چپ ہو کر رہ گئی۔
اس کا پورا آرڈر خاموشی سے سننے کے بعد عایشہ نے جواب بھی تو منہ توڑ دیا تھا۔

"میں کسی کے باپ کی نوکر نہیں ہوں"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن امی کا اس سے منہ بنا رہا تھا۔

انہیں لگتا تھا کہ عایشہ ان کے بہن بھائی کو ان سے دور کردے گی۔

آہستہ آہستہ امی کا موڈ بہتر ہوگیا تھا۔

اس نے بھی شکر ادا کیا کیونکہ ان کے پاس اب ماں کے علاؤہ تھا بھی کون وہ بھی ان خالہ اور ان کی بیٹیوں جیسے چھوٹی سوچ کے لوگوں کی وجہ سے ان سے دور ہورہی تھیں جو عایشہ کے لیے تکلیف دہ تھا۔

دن سکون سے کٹنے لگے امی اس کے کھانا پکا کر رکھنے سے بہت خوش رہتیں تھیں۔

لیکن اچانک خالہ کا فون آیا کہ وہ کچھ عرصہ ان لوگوں کے گھر رہنے آئینگی خزینہ سندس کے ساتھ۔

اور یہ سن کے عایشہ کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔

ازقلم،
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Happy women's day 2024 ♀️

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan