الجھی سلجھی سی کہانی / ULJHI SULJHI SI KAHANI ep 08



آٹھویں قسط

کبھی کبھی وقت وہ وہ مرحلوں سے گزرتا ہے کہ عقل دنگ اور ہواس کھو جاتے ہیں۔
انسان بےبس ہوجاتا ہے کہ کس مقام پہ ہے آگے کیا ہوگا اور آگے کیا کرنا چاہیے۔
انسان خراب نہیں ہوتا، انسان کے اندر موجود شیطانی خواہشات اور ہوس اس انسان کی نیت خراب کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔

اس بات سے لاعلم کہ بلال بھائی اس کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہیں کیا سوچ رہے ہیں وہ اپنی ہی دھن میں کمرے میں دوپٹہ لینے آئی تھی۔
پیچھے پیچھے وہ انسانی روپ میں موجود ہوس پرست شیطان بھی کمرے میں آگیا۔

جیسے ہی وہ دوپٹہ اٹھانے جھکی اس بےضمیر و ہوس پرست نے اسے دبوچ لیا۔

"بلال بھائ چھوڑیں کیا کر رہے ہیں آپ"
وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس کی گرفت سخت سے سخت ترین ہوتی جارہی تھی۔
اتنی کہ عایشہ کو بےحد درد ہونے لگا اس کے آعصاب جواب دینے لگے۔
اس کی پسلیاں ٹوٹنے کی کیفیت میں آگئیں تھیں اور سانس رکنے لگا تھا۔
بلال بھائی اسے بری طرح نوچ رہے تھے۔

"بلال بھائی مجھے درد ہورہا ہے چھوڑیں"
شدت کرب سے اس کے آنسو نکل آئے تھے۔

اچانک بلال نے اسے چھوڑ کر بیڈ پر دھکیل دیا۔

عایشہ نے گم ہوتے آعصاب کے ساتھ دوپٹہ کھینچا اور جیسے ہی بلال بھائی دور ہوے وہ بیڈ سے اٹھ کر بھاگنے لگی بےدھیانی میں وہ مالک مکان کی چپلیں پہن کر بھاگتی ہوئی ماموں کے گھر جا کر بیٹھ گئی۔
دو منٹ بعد بلال بھائی اسے گندی نظروں سے گھورتے ہوئے وہاں آئے اور ماموں کے کمرے میں جاکر لیٹ گئے۔
وہ نانا کے کمرے میں ان کے بستر کے پاس بیٹھی رہی، یہاں تک کہ وہ درندہ نیند کی آغوش میں چلاگیا۔
وہ خاموشی سے گھر واپس آگئی۔

پندرہ سال کی عمر میں وہ پچیس سال کی مسافت طے کر آئی تھی۔
جو معصومیت اس کا خاصا تھی اسے بڑی بےدردی سے نوچ لیا گیا تھا۔

جو دنیا اسے فیری لینڈ لگتی تھی پپا کی زندگی میں وہ اتنی بھیانک ہوگی اس نے کبھی سوچا نہ تھا۔
رشتوں کا یہ روپ بھی ہوتا ہے اسے پہلے گمان بھی نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سارا دن سہمتی رہی شام میں اس نے خود کو پرسکون کرنے کے لیے ٹی وی آن کرلیا۔
بھائی ماموں کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ باہر گیا ہوا تھا۔
وہ ٹی وی پر ڈراما چینل سرچ کر رہی تھی کہ ایسا لگا صحن میں کوئی ہے۔

بلال بھائی پھر سے وہاں موجود تھے۔

اس کی ڈر کے مارے جان نکلنے لگی۔
اس کے اٹھنے سے پہلے وہ اس کے برابر میں آکر بیٹھ گئے اور اپنے گندے ہاتھوں سے اسے واپس دبوچنے لگے۔
ان کے گندے ہاتھ اس کے دوپٹے کو اتارنے ہی لگے تھے کہ وہ ایک دم کھڑی ہوگئی اور صحن میں جاکر چلا چلا کر مالک مکان کی بیٹی کو آواز دینے لگی۔
بلال بھائی کی سیٹی گم ہوچکی تھی۔

روبینہ باجی جیسے ہی اوپر آئیں وہ انہیں لے کر کمرے میں آکر بیٹھ گئی۔

"روبی باج مجھے ابھی بریانی کی ترکیب لکھوادیں میں کل بناؤں گی"

وہ اطمینان سے کاپی پینسل لے کر بیٹھ گئی۔ روبینہ باجی بھی سکون سے بیٹھ گئی کیونکہ وہ بھی فارغ ہی تھیں۔

بلال بھائی پیچ وتاب کھاتے رہے مجبوراً دس منٹ بعد خود ہی وہاں سے چلے گئے۔

عایشہ نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔
اب اسے ڈرنا نہیں تھا۔ سامنا کرنا تھا۔ وہ بہادر ہے ڈرپوک نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کا گھر اس طرز تعمیر کا تھا کہ سیڑھیاں چڑھتے ہی سامنے صحن تھا جس کے دائیں جانب دو کمرے بنے ہوئے تھے اور سامنے کی جانب کچن اور ہوادار ڈک بنی ہوئی تھی تاکہ نیچے پورشن میں ہوا کا گزر ہو۔
ڈک کے ساتھ ہی گلی سے ہو کر کمروں کی بیک سائیڈ پر باتھ روم بنے ہوئے تھے۔

دونوں کمروں کے دروازے صحن میں کھلتے تھے مگر بیچ میں بھی ایک دروازے کی مدد سے دونوں کمروں میں راستہ بنایا گیا تھا۔

عایشہ سارا دن کچن سے کھانا پانی لے کر دونوں کمروں کے باہری دروازے بند کر دیتی۔
شروع شروع میں تو ڈر کے مارے وہ بالکنی کا گیٹ بھی بند رکھنے لگی تھی کہ کہیں بلال بھائی بالکنی سے ہی نہ آجائیں۔ لیکن پھر ہوا کے گزر کے لیے وہ بالکنی کا گیٹ کھول دیتی۔

صحن میں جب بھی کوئی آتا وہ پہلے پوچھ کے تسلی کرتی کہ کون ہے پھر گیٹ کھولتی۔

اس بیچ بلال بھائی دو بار آکر واپس چلے گئے لیکن اس نے دروازہ نہ کھولا۔

پہلے دن تو ان کے جا ے کے بعد بھی ڈر کے مارے پانی پینے تک باہر نہیں آئی کہ کہیں وہ باہر نہ ہوں امی کے آفس سے آنے کے بعد ہی وہ باہر آکر دن بھر کی پیاس بجھانے کچن میں گئی۔

اسے لگا تھا دروازے بند کر کے وہ بلال بھائی سے محفوظ ہوگئی ہے لیکن یہ اس کی بھول تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔

ازقلم،
عریشہ عابد۔

Comments

Popular posts from this blog

Happy women's day 2024 ♀️

Movies, Dramas, Cartoons list suitable for kids

Book Review of "HUNGER" By Tanzeela K. Hassan